گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا
by میر تقی میر

گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا
راتوں کو روتے روتے ہی جوں شمع گل گیا

ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر
تیوری چڑھائی تو نے کہ یاں جی نکل گیا

گرمئ عشق مانع نشوونما ہوئی
میں وہ نہال تھا کہ اگا اور جل گیا

مستی میں چھوڑ دیر کو کعبے چلا تھا میں
لغزش بڑی ہوئی تھی ولیکن سنبھل گیا

ساقی نشے میں تجھ سے لنڈھا شیشۂ شراب
چل اب کہ دخت تاک کا جوبن تو ڈھل گیا

ہر ذرہ خاک تیری گلی کی ہے بے قرار
یاں کون سا ستم زدہ ماٹی میں رل گیا

عریاں تنی کی شوخی سے دیوانگی میں میرؔ
مجنوں کے دشت خار کا داماں بھی چل گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse