گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے
by میر تقی میر

گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے
یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے

وہ اپنی ہی خوبی پہ رہتا ہے نازاں
مرو یا جیو کوئی اس کی بلا سے

کوئی ہم سے کھلتے ہیں بند اس قبا کے
یہ عقدے کھلیں گے کسو کی دعا سے

پشیمان توبہ سے ہوگا عدم میں
کہ غافل چلا شیخ لطف ہوا سے

نہ رکھی مری خاک بھی اس گلی میں
کدورت مجھے ہے نہایت صبا سے

جگر سوئی مژگاں کھنچا جائے ہے کچھ
مگر دیدۂ تر ہیں لوہو کے پیاسے

اگر چشم ہے تو وہی عین حق ہے
تعصب تجھے ہے عجب ماسوا سے

طبیب سبک عقل ہرگز نہ سمجھا
ہوا درد عشق آہ دونا دوا سے

ٹک اے مدعی چشم انصاف وا کر
کہ بیٹھے ہیں یہ قافیے کس ادا سے

نہ شکوہ شکایت نہ حرف و حکایت
کہو میرؔ جی آج کیوں ہو خفا سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse