گئی چھاؤں اس تیغ کی سر سے جب کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گئی چھاؤں اس تیغ کی سر سے جب کی
by میر تقی میر

گئی چھاؤں اس تیغ کی سر سے جب کی
جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی

پڑی خرمن گل پہ بجلی سی آخر
مرے خوش نگہ کی نگاہ اک غضب کی

کوئی بات نکلے ہے دشوار منہ سے
ٹک اک تو بھی تو سن کسی جاں بہ لب کی

تو شملہ جو رکھتا ہے خر ہے وگرنہ
ضرورت ہے کیا شیخ دم اک وجب کی

یکایک بھی آ سر پہ واماندگاں کے
بہت دیکھتے ہیں تری راہ کب کی

دماغ و جگر دل مخالف ہوئے ہیں
ہوئی متفق اب ادھر رائے سب کی

تجھے کیونکے ڈھونڈوں کہ سوتے ہی گزری
تری راہ میں اپنے پیے طلب کی

دل عرش سے گزرے ہے ضعف میں بھی
یہ زور آوری دیکھو زاری شب کی

عجب کچھ ہے گر میرؔ آوے میسر
گلابی شراب اور غزل اپنے ڈھب کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse