کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا
by شیخ قلندر بخش جرات
296710کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کاشیخ قلندر بخش جرات

کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا
حسن مرقع ہے طلسمات کا

روؤں تو خوش ہو کے پیے ہے وہ مے
سمجھے ہے موسم اسے برسات کا

اٹھتی جوانی جو ہے تو دن بہ دن
اور ہی عالم ہے کچھ اس گات کا

گھر میں بلایا ہے تو کچھ منہ سے دو
سیکھو یہ ڈھب ہم سے مدارات کا

شیخ جواں ہوگا تو پی دیکھ اسے
شیشے میں پانی ہے کرامات کا

ہم نہ ملیں تم سے تو نکلے ہے جاں
اور تمہیں عالم ہے مساوات کا

اس نے کی اب کم سخنی اختیار
جس کو مزہ تھا مری ہر بات کا

آنکھ بھی ملتی ہے تو نا آشنا
اب وہ کہاں لطف اشارات کا

رونے کی جا ہے سن اسے ہم نشیں
تو تو ہے محرم مرے اوقات کا

حکم ہوا رات کو آؤ نہ یاں
دن کو رکھو طور ملاقات کا

دل کے اٹکتے ہی ہوا ہے ستم
فرق ملاقات میں دن رات کا

بات نئی سوجھے ہے جرأتؔ تجھے
میں تو ہوں عاشق تری اس بات کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse