کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے
by میر تقی میر

کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے
چپکے باتیں اٹھائے گئے سر گاڑے وہ ہیں آئے گئے

اٹھے نقاب جہاں سے یا رب جس سے تکلف بیچ میں ہے
جب نکلے اس راہ سے ہو کر منہ تم ہم سے چھپائے گئے

کب کب تم نے سچ نہیں مانیں جھوٹی باتیں غیروں کی
تم ہم کو یوں ہی جلائے گئے وے تم کو وہ ہیں لگائے گئے

صبح وہ آفت اٹھ بیٹھا تھا تم نے نہ دیکھا صد افسوس
کیا کیا فتنے سر جوڑے پلکوں کے سائے سائے گئے

اللہ رے یہ دیدہ درائی ہوں نہ مکدر کیونکے ہم
آنکھیں ہم سے ملائے گئے پھر خاک میں ہم کو ملائے گئے

آگ میں غم کی ہو کے گدازاں جسم ہوا سب پانی سا
یعنی بن ان شعلہ رخوں کے خوب ہی ہم بھی تائے گئے

ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بھی حد ایک آخر ہوتی ہے
کشتے اس کی تیغ ستم کے گور تئیں کب لائے گئے

خضر جو مل جاتا ہے گاہے آپ کو بھولا خوب نہیں
کھوئے گئے اس راہ کے ورنہ کاہے کو پھر پائے گئے

مرنے سے کیا میرؔ جی صاحب ہم کو ہوش تھے کیا کریے
جی سے ہاتھ اٹھائے گئے پر اس سے دل نہ اٹھائے گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse