کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات
by میر تقی میر

کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان جب کی بات

نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات

کس کا روئے سخن نہیں ہے ادھر
ہے نظر میں ہماری سب کی بات

ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے
غصے میں اس کے زیر لب کی بات

کہتے ہیں آگے تھا بتوں میں رحم
ہے خدا جانیے یہ کب کی بات

گو کہ آتش زباں تھے آگے میرؔ
اب کی کہیے گئی وہ تب کی بات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse