کیا کہیں آتش ہجراں سے گلے جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہیں آتش ہجراں سے گلے جاتے ہیں
by میر تقی میر

کیا کہیں آتش ہجراں سے گلے جاتے ہیں
چھاتیاں سلگیں ہیں ایسی کہ جلے جاتے ہیں

گوہر گوش کسو کا نہیں جی سے جاتا
آنسو موتی سے مرے منہ پہ ڈھلے جاتے ہیں

یہی مسدود ہے کچھ راہ وفا ورنہ بہم
سب کہیں نامہ و پیغام چلے جاتے ہیں

بار حرمان و گل و داغ نہیں اپنے ساتھ
شجر باغ وفا پھولے پھلے جاتے ہیں

حیرت عشق میں تصویر سے رفتہ ہی رہے
ایسے جاتے ہیں جو ہم بھی تو بھلے جاتے ہیں

ہجر کی کوفت جو کھینچے ہیں انہیں سے پوچھو
دل دیے جاتے ہیں جی اپنے ملے جاتے ہیں

یاد قد میں ترے آنکھوں سے بہیں ہیں جوئیں
گر کسو باغ میں ہم سرو تلے جاتے ہیں

دیکھیں پیش آوے ہے کیا عشق میں اب تو جوں سیل
ہم بھی اس راہ میں سر گاڑے چلے جاتے ہیں

پر غبارئ جہاں سے نہیں سدھ میرؔ ہمیں
گرد اتنی ہے کہ مٹی میں رلے جاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse