کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا
by میر تقی میر

کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا
قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا

بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا

کچھ خطرناکی طریق عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہرو اس راہ ہو کر جو گیا

مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا

میرؔ ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آ کر بال اپنے دھو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse