کیا کروں شرح خستہ جانی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
by میر تقی میر

کیا کروں شرح خستہ جانی کی
میں نے مر مر کے زندگانی کی

حال بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی

سب کو جانا ہے یوں تو پر اے صبر
آتی ہے اک تری جوانی کی

تشنہ لب مر گئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بوند پانی کی

بیت بحثی سمجھ کے کر بلبل
دھوم ہے میری خوش زبانی کی

جس سے کھوئی تھی نیند میرؔ نے کل
ابتدا پھر وہی کہانی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse