کیا میں نے رو کر فشار گریباں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا میں نے رو کر فشار گریباں
by میر تقی میر

کیا میں نے رو کر فشار گریباں
رگ ابر تھا تار تار گریباں

کہیں دست چالاک ناخن نہ لاگے
کہ سینہ ہے قرب و جوار گریباں

نشاں اشک خونیں کے اڑتے چلے ہیں
خزاں ہو چلی ہے بہار گریباں

جنوں تیری منت ہے مجھ پر کہ تو نے
نہ رکھا مرے سر پہ بار گریباں

زیارت کروں دل سے خستہ جگر کی
کہاں ہوگی یا رب مزار گریباں

کہیں جائے یہ دور دامن بھی جلدی
کہ آخر ہوا روزگار گریباں

پھروں میرؔ عریاں نہ دامن کا غم ہو
نہ باقی رہے خار خار گریباں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse