کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
by میر تقی میر

کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

مر گئے پر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی
کون اس طرح موا حسرت دیدار کے ساتھ

شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال
چشم مشتاق لگی جائے ہے طومار کے ساتھ

راہ اس شوخ کی عاشق سے نہیں رک سکتی
جان جاتی ہے چلی خوبی رفتار کے ساتھ

وے دن اب سالتے ہیں راتوں کو برسوں گزرے
جن دنوں دیر رہا کرتے تھے ہم یار کے ساتھ

ذکر گل کیا ہے صبا اب کہ خزاں میں ہم نے
دل کو ناچار لگایا ہے خس و خار کے ساتھ

کس کو ہر دم ہے لہو رونے کا ہجراں میں دماغ
دل کو اک ربط سا ہے دیدۂ خوں بار کے ساتھ

میری اس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی
جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ

دیکھیے کس کو شہادت سے سرافراز کریں
لاگ تو سب کو ہے اس شوخ کی تلوار کے ساتھ

بیکلی اس کی نہ ظاہر تھی جو تو اے بلبل
دم کش میرؔ ہوئی اس لب و گفتار کے ساتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse