کیا مصیبت زدہ دل مائل آزار نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا مصیبت زدہ دل مائل آزار نہ تھا
by میر تقی میر

کیا مصیبت زدہ دل مائل آزار نہ تھا
کون سے درد و ستم کا یہ طرف دار نہ تھا

آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا یہ ولے قابل دیدار نہ تھا

دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں
تیرے کوچے میں مگر سایۂ دیوار نہ تھا

صد گلستاں تا یک بال تھے اس کے جب تک
طائر جاں قفس تن کا گرفتار نہ تھا

حیف سمجھا ہی نہ وہ قاتل ناداں ورنہ
بے گنہ مارنے قابل یہ گنہ گار نہ تھا

عشق کا جذب ہوا باعث سودا ورنہ
یوسف مصر زلیخا کا خریدار نہ تھا

نرم تر موم سے بھی ہم کو کوئی دیتی قضا
سنگ چھاتی کا تو یہ دل ہمیں درکار نہ تھا

رات حیران ہوں کچھ چپ ہی مجھے لگ گئی میرؔ
درد پنہاں تھے بہت پر لب اظہار نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse