کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا
by میر تقی میر

کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا
رو آشیاں طائر رنگ پریدہ تھا

قاصد جو واں سے آیا تو شرمندہ میں ہوا
بیچارہ گریہ ناک گریباں دریدہ تھا

اک وقت ہم کو تھا سر گریہ کہ دشت میں
جو خار خشک تھا سو وہ طوفاں رسیدہ تھا

جس صید گاہ عشق میں یاروں کا جی گیا
مرگ اس شکار گہ کا شکار رمیدہ تھا

کوری چشم کیوں نہ زیارت کو اس کی آئے
یوسف سا جس کو مد نظر نوردیدہ تھا

افسوس مرگ صبر ہے اس واسطے کہ وہ
گل ہائے باغ عشرت دنیا نچیدہ تھا

مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی
ہر نالہ میری جان کو تیغ کشیدہ تھا

حاصل نہ پوچھ گلشن مشہد کا بوالہوس
یاں پھل ہر اک درخت کا حلق بریدہ تھا

دل بے قرار گریۂ خونیں تھا رات میرؔ
آیا نظر تو بسمل در خوں تپیدہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse