کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
by میر تقی میر

کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم

خورشید صبح نکلے ہے اس نور سے کہ تو
شبنم گرہ میں رکھتی ہے یہ چشم تر کہ ہم

جیتے ہیں تو دکھا دیں گے دعواے عندلیب
گل بن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم

یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ ہم ہیں کشتنی
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم

تلواریں تم لگاتے ہو ہم ہیں گے دم بخود
دنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگزر کہ ہم

اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا در بہ در کہ ہم

جب جا پھنسا کہیں تو ہمیں یاں ہوئی خبر
رکھتا ہے کون دل تری اتنی خبر کہ ہم

جیتے ہیں اور روتے ہیں لخت جگر ہے میرؔ
کرتے سنا ہے یوں کوئی قیمہ جگر کہ ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse