کہتے ہیں بہار آئی گل پھول نکلتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہتے ہیں بہار آئی گل پھول نکلتے ہیں
by میر تقی میر

کہتے ہیں بہار آئی گل پھول نکلتے ہیں
ہم کنج قفس میں ہیں دل سینوں میں جلتے ہیں

اب ایک سی بے ہوشی رہتی نہیں ہے ہم کو
کچھ دل بھی سنبھلتے ہیں پر دیر سنبھلتے ہیں

وہ تو نہیں اک چھینٹا رونے کا ہوا گاہے
اب دیدۂ تر اکثر دریا سے ابلتے ہیں

ان پاؤں کو آنکھوں سے ہم ملتے رہے جیسا
افسوس سے ہاتھوں کو اب ویسا ہی ملتے ہیں

کیا کہیے کہ اعضا سب پانی ہوئے ہیں اپنے
ہم آتش ہجراں میں یوں ہی پڑے گلتے ہیں

کرتے ہیں صفت جب ہم لعل لب جاناں کی
تب کوئی ہمیں دیکھے کیا لعل اگلتے ہیں

گل پھول سے بھی اپنے دل تو نہیں لگتے ٹک
جی لوگوں کے بے جاناں کس طور بہلتے ہیں

ہیں نرم صنم گو نہ کہنے کے تئیں ورنہ
پتھر ہیں انھوں کے دل کاہے کو پگھلتے ہیں

اے گرم سفر یاراں جو ہے سو سر رہ ہے
جو رہ سکو رہ جاؤ اب میرؔ بھی چلتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse