کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
by میر تقی میر

کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو

شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم
اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو

خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن
اس قدر تو سواد ہے ہم کو

آہ کس ڈھب سے روئیے کم کم
شوق حد سے زیاد ہے ہم کو

شیخ و پیر مغاں کی خدمت میں
دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو

سادگی دیکھ عشق میں اس کے
خواہش جان شاد ہے ہم کو

بد گمانی ہے جس سے تس سے آہ
قصد شور و فساد ہے ہم کو

دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں
اور سب سے عناد ہے ہم کو

نامرادانہ زیست کرتا تھا
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse