کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی
by میر تقی میر

کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی

دل کا اس کنج لب سے دے ہے نشاں
بات لگتی تو ہے ٹھکانے کی

وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور
ہے یہ تقریب جی کے جانے کی

تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش شوق
تھی خبر گرم اس کے آنے کی

خضر اس خط سبز پر تو موا
دھن ہے اب اپنے زہر کھانے کی

دل صد چاک باب زلف ہے لیک
باؤ سی بندھ رہی ہے شانے کی

کسو کم ظرف نے لگائی آہ
تجھ سے مے خانے کے جلانے کی

ورنہ اے شیخ شہر واجب تھی
جام داری شراب خانے کی

جو ہے سو پائمال غم ہے میرؔ
چال بے ڈول ہے زمانے کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse