کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایا
by عبدالعزیز فطرت
330736کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایاعبدالعزیز فطرت

کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایا
اپنا ہی پتا نہ ہم نے پایا

دل کس کے جمال میں ہوا گم
اکثر یہ خیال ہی نہ آیا

ہم تو ترے ذکر کا ہوئے جزو
تو نے ہمیں کس طرح بھلایا

اے دوست تری نظر سے میرا
ایوان نگاہ جگ مسکایا

خورشید اسی کو ہم نے جانا
جو ذرہ زمیں پہ مسکرایا

مقصود تھی تازگی چمن کی
ہم نے رگ جاں سے خوں بہایا

افتاد ہے سب کی اپنی اپنی
کس نے ہے کسی کا غم بٹایا

محرومئ جاوداں ہے اور میں
میں ذوق طلب سے باز آیا

ہر غم پہ ہے میرے نام کی مہر
فطرتؔ کوئی غم نہیں پرایا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse