کون کہتا ہے تم ادا نہ کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون کہتا ہے تم ادا نہ کرو (1922)
by پیر شیر محمد عاجز
324403کون کہتا ہے تم ادا نہ کرو1922پیر شیر محمد عاجز

کون کہتا ہے تم ادا نہ کرو
پر وفا کی جگہ جفا نہ کرو

سرو کٹ جائیں گے پسے گی حنا
اس طرح باغ میں پھرا نہ کرو

ہنس رہے ہیں ابھی خوشی میں وہ
میرے رونے کا تذکرہ نہ کرو

زخم دل پر نہ ہو نمک پاشی
اس مزے سے تو آشنا نہ کرو

ہے قیامت تمہاری اٹکھیلی
حشر اے جان من بپا نہ کرو

خرمن دل پہ برق گرتی ہے
میرے رونے پہ تم ہنسا نہ کرو

نعمت عشق ہے یہ داغ جگر
شکر حق کے سوا گلا نہ کرو

ہے شب وصل بے تکلف ہو
شوخیاں کہتی ہیں حیا نہ کرو

ہوں گرفتار الفت گیسو
مجھ کو بہر خدا رہا نہ کرو

شوق کہتا ہے خود چلے جاؤ
منت نامہ بر کیا نہ کرو

دل لگانا برا ہے اے عاجزؔ
چپ رہو اس کا تذکرہ نہ کرو


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DA%A9%D9%88%D9%86_%DA%A9%DB%81%D8%AA%D8%A7_%DB%81%DB%92_%D8%AA%D9%85_%D8%A7%D8%AF%D8%A7_%D9%86%DB%81_%DA%A9%D8%B1%D9%88