کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا
by شیخ قلندر بخش جرات
296713کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیاشیخ قلندر بخش جرات

کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا
خواب میں آنے کی بھی تم نے قسم کھائی کیا

اس کا گھر چھوڑ کے ہم تو نہ کسی در پہ گئے
پر سمجھتا ہے اسے وہ بت ہرجائی کیا

سنتے ہی جس کے ہوئی جان ہوا تن سے مرے
اس گلی سے یہ خبر باد صبا لائی کیا

واہ میں اور نہ آنے کو کہوں گا توبہ
میں تو حیراں ہوں یہ بات آپ نے فرمائی کیا

بہہ چلا چشم سے یکبار جو اک دریا سا
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے یہ لہر آئی کیا

حرف مطلب کو مرے سن کے بصد ناز کہا
ہم سمجھتے نہیں بکتا ہے تو سودائی کیا

شیخ جی ہم تو ہیں ناداں پر اسے آنے دو
ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا

کیفیت محفل خوباں کی نہ اس بن پوچھو
اس کو دیکھوں نہ تو پھر دے مجھے دکھلائی کیا

آج دم اپنا ٹھہرتا نہیں کیا جانیے آہ
مصلحت لوگوں نے واں بیٹھ کے ٹھہرائی کیا

بر میں وہ شوخ تھا اور سیر شب ماہ تھی رات
اپنے گھر کیا کہیں تھی انجمن آرائی کیا

پر گیا صبح سے وہ گھر تو یہی دھڑکا ہے
دیکھیں آج اس کا عوض لے شب تنہائی کیا

دیکھنے کا جو کروں اس کے میں دعویٰ جرأتؔ
مجھ میں جرأت یہ کہاں اور مری بینائی کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse