کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشم تر سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشم تر سے
by میر تقی میر

کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشم تر سے
کیا کیا نہ ابر آ کر یاں زور زور برسے

وحشت سے میری یارو خاطر نہ جمع رکھیو
پھر آوے یا نہ آوے نو پر اٹھا جو گھر سے

اب جوں سرشک ان سے پھرنے کی چشم مت رکھ
جو خاک میں ملے ہیں گر کر تری نظر سے

دیدار خواہ اس کے کم ہوں تو شور کم ہو
ہر صبح اک قیامت اٹھتی ہے اس کے در سے

داغ ایک ہو جلا بھی خوں ایک ہو بہا بھی
اب بحث کیا ہے دل سے کیا گفتگو جگر سے

دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختے کے
بہتر کیا ہے میں نے اس عیب کو ہنر سے

انجام کار بلبل دیکھا ہم اپنی آنکھوں
آوارہ تھے چمن میں دو چار ٹوٹے پر سے

بے طاقتی نے دل کی آخر کو مار رکھا
آفت ہمارے جی کی آئی ہمارے گھر سے

دل کش یہ منزل آخر دیکھا تو آہ نکلی
سب یار جا چکے تھے آئے جو ہم سفر سے

آوارہ میرؔ شاید واں خاک ہو گیا ہے
یک گرد اٹھ چلے ہے گاہ اس کی رہ گزر سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse