کل شب ہجراں تھی لب پر نالہ بیمارانہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل شب ہجراں تھی لب پر نالہ بیمارانہ تھا
by میر تقی میر

کل شب ہجراں تھی لب پر نالہ بیمارانہ تھا
شام سے تا صبح دم بالیں پہ سر یکجا نہ تھا

شہرۂ عالم اسے یمن محبت نے کیا
ورنہ مجنوں ایک خاک افتادۂ ویرانہ تھا

منزل اس مہ کی رہا جو مدتوں اے ہم نشیں
اب وہ دل گویا کہ اک مدت کا ماتم خانہ تھا

اک نگاہ آشنا کو بھی وفا کرتا نہیں
وا ہوئیں مژگاں کہ سبزہ سبزۂ بیگانہ تھا

روز و شب گزرے ہے پیچ و تاب میں رہتے تجھے
اے دل صد چاک کس کی زلف کا تو شانہ تھا

یاد ایامے کہ اپنے روز و شب کی جائے باش
یا در باز بیاباں یا درمے خانہ تھا

جس کو دیکھا ہم نے اس وحشت کدے میں دہر کے
یا سڑی یا خبطی یا مجنون یا دیوانہ تھا

بعد خوں ریزی کے مدت بے حنا رنگیں رہا
ہاتھ اس کا جو مرے لوہو میں گستاخانہ تھا

غیر کے کہنے سے مارا ان نے ہم کو بے گناہ
یہ نہ سمجھا وہ کہ واقع میں بھی کچھ تھا یا نہ تھا

صبح ہوتے وہ بناگوش آج یاد آیا مجھے
جو گرا دامن پہ آنسو گوہر یک دانہ تھا

شب فروغ بزم کا باعث ہوا تھا حسن دوست
شمع کا جلوہ غبار دیدۂ پروانہ تھا

رات اس کی چشم میگوں خواب میں دیکھی تھی میں
صبح سوتے سے اٹھا تو سامنے پیمانہ تھا

رحم کچھ پیدا کیا شاید کہ اس بے رحم نے
گوش اس کا شب ادھر تا آخر افسانہ تھا

میرؔ بھی کیا مست طافح تھا شراب عشق کا
لب پہ عاشق کے ہمیشہ نعرۂ مستانہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse