کل سے دل بیمار کی حالت نہیں اچھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کل سے دل بیمار کی حالت نہیں اچھی (1927)
by عاشق حسین بزم آفندی
324762کل سے دل بیمار کی حالت نہیں اچھی1927عاشق حسین بزم آفندی

کل سے دل بیمار کی حالت نہیں اچھی
اللہ کرے خیر ہو صورت نہیں اچھی

اس شوخ سے ملنے کی یہ صورت نہیں اچھی
موت اچھی مگر غیر کی منت نہیں اچھی

میں عاشق گیسو ہوں بہلتا ہے یہیں دل
کیوں کر یہ کہوں قبر کی وحشت نہیں اچھی

دیکھو کہ گلے ملتے ہی سر کاٹتی ہے تیغ
سچ کہتے ہیں ظالم کی محبت نہیں اچھی

کہہ کر کمر یار کو معدوم ہوئے غم
ہر جا پہ طبیعت کی بھی جودت نہیں اچھی

قاتل تجھے دے گا لب ہر زخم دعائیں
ہر وقت نمک ڈال یہ خست نہیں اچھی

اے شیخ نہ کر شوق میں حوروں کی عبادت
ہرگز نہ ملیں گی تری نیت نہیں اچھی

یہ کہہ کے لحد میری وہ کر جاتے ہیں پامال
پھر اس کو بناؤ کہ یہ تربت نہیں اچھی

اک عیب بھی ہے حسن کے ہم راہ بتوں میں
صورت اگر اچھی ہے تو سیرت نہیں اچھی

ہے ہے تجھے کس ظالم بے رحم نے روندا
حالت جو تری سبزۂ تربت نہیں اچھی

کیوں طور شرار رخ روشن سے جلائے
کہہ دے کوئی ان سے یہ شرارت نہیں اچھی

جاتے ہی ترے چھا گئی گھر بھر میں اداسی
میں کیا در و دیوار کی حالت نہیں اچھی

عشاق کو وہ دیکھتے ہیں چشم غضب سے
اک مصحف رخ میں یہی صورت نہیں اچھی

پیدا کرو انداز نئے تازہ ادائیں
ظلم و ستم و جور میں جدت نہیں اچھی

میں نے جو کہا رنج ہے کیا مرگ عدو کا
بولے کہ نہیں میری طبیعت نہیں اچھی

اے دیدۂ تر رو کہ کٹیں ہجر کی راتیں
برسات میں پانی کی یہ قلت نہیں اچھی

گھیرا جو مجھے دائرۂ رنج و الم نے
کیا میرے مقدر کی کتابت نہیں اچھی

اے بزمؔ اٹھا کرتا ہے کیوں درد جگر میں
سچ کہہ کسے دیکھا کہ طبیعت نہیں اچھی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DA%A9%D9%84_%D8%B3%DB%92_%D8%AF%D9%84_%D8%A8%DB%8C%D9%85%D8%A7%D8%B1_%DA%A9%DB%8C_%D8%AD%D8%A7%D9%84%D8%AA_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA_%D8%A7%DA%86%DA%BE%DB%8C