کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوریٔ بتاں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوریٔ بتاں سے
by میر تقی میر

کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوریٔ بتاں سے
آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے

تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم
جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے

جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے

کیا خوبی اس کے منہ کی اے غنچہ نقل کریے
تو تو نہ بول ظالم بو آتی ہے وہاں سے

آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو
حیران ہوں یہ شوخی آئی تمہیں کہاں سے

سبزان باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے
دلچسپ کاہے کو ہیں اس بے وفا جواں سے

کی شست و شوبدن کی جس دن بہت سی ان نے
دھوئے تھے ہاتھ میں نے اس دن ہی اپنی جاں سے

خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب
ہر یک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے

اتنی بھی بد مزاجی ہر لحظہ میرؔ تم کو
الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse