کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں
by میر تقی میر

کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں
فریاد کریں کس سے کہاں جا کے پکاریں

ہر دم کا بگڑنا تو کچھ اب چھوٹا ہے ان سے
شاید کسی ناکام کا بھی کام سنواریں

دل میں جو کبھو جوش غم اٹھتا ہے تو تا دیر
آنکھوں سے چلی جاتی ہیں دریا کی سی دھاریں

کیا ظلم ہے اس خونی عالم کی گلی میں
جب ہم گئے دو چار نئی دیکھیں مزاریں

جس جا کہ خس و خار کے اب ڈھیر لگے ہیں
یاں ہم نے انہیں آنکھوں سے دیکھیں ہیں بہاریں

کیوں کر کے رہے شرم مری شہر میں جب آہ
ناموس کہاں اتریں جو دریا پہ ازاریں

وے ہونٹ کہ ہے شور مسیحائی کا جن کی
دم لیویں نہ دو چار کو تا جی سے نہ ماریں

منظور ہے کب سے سر شوریدہ کا دینا
چڑھ جائے نظر کوئی تو یہ بوجھ اتاریں

بالیں پہ سر اک عمر سے ہے دست طلب کا
جو ہے سو گدا کس کنے جا ہاتھ پساریں

ان لوگوں کے تو گرد نہ پھر سب ہیں لباسی
سو گز بھی جو یہ پھاڑیں تو اک گز بھی نہ واریں

ناچار ہو رخصت جو منگا بھیجی تو بولا
میں کیا کروں جو میرؔ جی جاتے ہیں سدھاریں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse