کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
by میر تقی میر

کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زمیں سخت ہے آسماں دور ہے

جرس راہ میں جملہ تن شور ہے
مگر قافلے سے کوئی دور ہے

تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

نہ ہو کس طرح فکر انجام کار
بھروسہ ہے جس پر سو مغرور ہے

پلک کی سیاہی میں ہے وہ نگاہ
کسو کا مگر خون منظور ہے

دل اپنا نہایت ہے نازک مزاج
گرا گر یہ شیشہ تو پھر چور ہے

کہیں جو تسلی ہوا ہو یہ دل
وہی بے قراری بدستور ہے

نہ دیکھا کہ لوہو تھنبا ہو کبھو
مگر چشم خوں بار ناسور ہے

تنک گرم تو سنگ ریزے کو دیکھ
نہاں اس میں بھی شعلۂ طور ہے

بہت سعی کریے تو مر رہیے میرؔ
بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse