کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا
by میر تقی میر

کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا
شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا

ہے ابر کی چادر شفقی جوش سے گل کے
میخانے کے ہاں دیکھیے یہ رنگ ہوا کا

بہتیری گرو جنس کلالوں کے پڑی ہے
کیا ذکر ہے واعظ کے مصلیٰ و ردا کا

مر جائے گا باتوں میں کوئی غم زدہ یوں ہی
ہر لحظہ نہ ہو ممتحن ارباب وفا کا

تدبیر تھی تسکیں کے لیے لوگوں کی ورنہ
معلوم تھا مدت سے ہمیں نفع دوا کا

ہاتھ آئینہ رویوں سے اٹھا بیٹھیں نہ کیوں کر
بالعکس اثر پاتے تھے ہم اپنی دعا کا

آنکھ اس کی نہیں آئینے کے سامنے ہوتی
حیرت زدہ ہوں یار کی میں شرم و حیا کا

برسوں سے تو یوں ہے کہ گھٹا جب امنڈ آئی
تب دیدۂ تر سے بھی ہوا ایک جھڑاکا

آنکھ اس سے نہیں اٹھنے کی صاحب نظروں کی
جس خاک پہ ہوگا اثر اس کی کف پا کا

تلوار کے سائے ہی میں کاٹے ہے تو اے میرؔ
کس دل زدہ کو ہوئے ہے یہ ذوق فنا کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse