کرتے ہیں چین بیٹھے حسن و جمال والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کرتے ہیں چین بیٹھے حسن و جمال والے  (1893) 
by مرزا مسیتابیگ منتہی

کرتے ہیں چین بیٹھے حسن و جمال والے
پھرتے ہیں مارے مارے کیا کیا کمال والے

میری طرح سے ایک دن بازار سے جہاں کے
جاویں گے ہاتھ خالی جتنے ہیں تال والے

دم دے کے پھانستا ہے عشاق کے دنوں کو
میں جانتا ہوں تجھ کو زلفوں کے جال والے

محشر کا معرکہ ہو جس دم جہاں کے اندر
اس دن ہمیں بچانا او لمبی ڈھال والے

بلبل ہیں تیرے ہم بھی باغ جہاں کے اندر
او گل سے گال والے سنبل سے بال والے

تنہا لحد کے اندر ہوں گے گدا کی صورت
جتنے ہیں اس جہاں میں جاہ و جلال والے

زلف شب جدائی تیری بری بلا ہے
اس کا خیال رکھنا او لمبے بال والے

عاشق ہیں ہم بھی تیرے ابرو کے اور رخ کے
ہم کو بھی یاد رکھنا بدر و ہلال والے

بھولے ہیں دو جہاں کو سد بد نہیں کسی کی
جو جو ہیں اس جہاں میں تیرے خیال والے

صیاد نے بچھایا گلشن میں دام و دانہ
سن گلعذار والے او خط و خال والے

میری طرح سے اک دن بازار سے جہاں کے
جائیں گے ہاتھ خالی جتنے ہیں مال والے

منصور و قیس و وامق فرہاد و منتہیؔ سے
کیا کیا گئے جہاں سے فضل و کمال والے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DA%A9%D8%B1%D8%AA%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA_%DA%86%DB%8C%D9%86_%D8%A8%DB%8C%D9%B9%DA%BE%DB%92_%D8%AD%D8%B3%D9%86_%D9%88_%D8%AC%D9%85%D8%A7%D9%84_%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92