کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے
by میر تقی میر

کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے
پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے

صورت گر اجل کا کیا ہاتھ تھا کہے تو
کھینچی وہ تیغ ابرو فولاد کے قلم سے

سوزش گئی نہ دل کی رونے سے روز و شب کے
جلتا ہوں اور دریا بہتے ہیں چشم نم سے

طاعت کا وقت گزرا مستی میں آب رز کی
اب چشم داشت اس کے یاں ہے فقط کرم سے

کڑھیے نہ روئیے تو اوقات کیونکے گزرے
رہتا ہے مشغلہ سا بارے غم و الم سے

مشہور ہے سماجت میری کہ تیغ برسی
پر میں نہ سر اٹھایا ہرگز ترے قدم سے

بات احتیاط سے کر ضائع نہ کر نفس کو
بالیدگی دل ہے مانند شیشہ دم سے

کیا کیا تعب اٹھائے کیا کیا عذاب دیکھے
تب دل ہوا ہے اتنا خوگر ترے ستم سے

ہستی میں ہم نے آ کر آسودگی نہ دیکھی
کھلتیں نہ کاش آنکھیں خواب خوش عدم سے

پامال کر کے ہم کو پچھتاؤ گے بہت تم
کم یاب ہیں جہاں میں سر دینے والے ہم سے

دل دو ہو میرؔ صاحب اس بد معاش کو تم
خاطر تو جمع کر لو ٹک قول سے قسم سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse