کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
by میر تقی میر

کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
ایک دن یوں ہی جی سے جائیے گا

شکل تصویر بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا

سب سے مل چل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پائیے گا

نہ موئے ہم اسیری میں تو نسیم
کوئی دن اور باؤ کھائیے گا

کہیے گا اس سے قصۂ مجنوں
یعنی پردے میں غم سنایئے گا

اس کے پابوس کی توقع پر
اپنے تیں خاک میں ملایئے گا

اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگایئے گا

شرکت شیخ و برہمن سے میرؔ
کعبہ و دیر سے بھی جائیے گا

اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جدی مسجد
کسی ویرانے میں بنایئے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse