کب تلک جی رکے خفا ہووے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب تلک جی رکے خفا ہووے
by میر تقی میر

کب تلک جی رکے خفا ہووے
آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے

جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے
دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے

کر نمک سود سینۂ مجروح
جی میں گر ہے کہ کچھ مزہ ہووے

کاہش دل کی کیجیے تدبیر
جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے

چپ کا باعث ہے بے تمنائی
کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے

بیکلی مارے ڈالتی ہے نسیم
دیکھیے اب کے سال کیا ہووے

مر گئے ہم تو مر گئے تو جی
دل گرفتہ تری بلا ہووے

عشق کیا ہے درست اے ناصح
جانے وہ جس کا دل لگا ہووے

پھر نہ شیطاں سجود آدم سے
شاید اس پردے میں خدا ہووے

نہ سنا رات ہم نے اک نالہ
غالباً میرؔ مر رہا ہووے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse