ڈھونڈا نہ پائیے جو اس وقت میں سو زر ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈھونڈا نہ پائیے جو اس وقت میں سو زر ہے
by میر تقی میر

ڈھونڈا نہ پائیے جو اس وقت میں سو زر ہے
پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے

ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کار گاہ ساری دکان شیشہ گر ہے

ڈھایا جنوں نے اس کو ان پر خرابی آئی
جانا گیا اسی سے دل بھی کسو کا گھر ہے

تجھ بن شکیب کب تک بے فائدہ ہوں نالاں
مجھ نالہ کش کے تو اے فریاد رس کدھر ہے

صید افگنو ہمارے دل کو جگر کو دیکھو
اک تیر کا ہدف ہے اک تیغ کا سپر ہے

اہل زمانہ رہتے اک طور پر نہیں ہیں
ہر آن مرتبے سے اپنے انہیں سفر ہے

کافی ہے مہر قاتل محضر پہ خوں کے میرے
پھر جس جگہ یہ جاوے اس جا ہی معتبر ہے

تیری گلی سے بچ کر کیوں مہر و مہ نہ نکلیں
ہر کوئی جانتا ہے اس راہ میں خطر ہے

وے دن گئے کہ آنسو روتے تھے میرؔ اب تو
آنکھوں میں لخت دل ہے یا پارۂ جگر ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse