چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت
by میر تقی میر

چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت
مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت

امکاں نہیں جیتے جی ہو اس قید سے آزاد
مر جائے تبھی چھوٹے گرفتار محبت

تقصیر نہ خوباں کی نہ جلاد کا کچھ جرم
تھا دشمن جانی مرا اقرار محبت

ہر جنس کے خواہاں ملے بازار جہاں میں
لیکن نہ ملا کوئی خریدار محبت

اس راز کو رکھ جی ہی میں تا جی بچے تیرا
زنہار جو کرتا ہو تو اظہار محبت

ہر نقش قدم پر ترے سر بیچے ہیں عاشق
ٹک سیر تو کر آج تو بازار محبت

کچھ مست ہیں ہم دیدۂ پر خون جگر سے
آیا یہی ہے ساغر سرشار محبت

بیکار نہ رہ عشق میں تو رونے سے ہرگز
یہ گریہ ہی ہے آب رخ کار محبت

مجھ سا ہی ہو مجنوں بھی یہ کب مانے ہے عاقل
ہر سر نہیں اے میرؔ سزاوار محبت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse