چھاتی جلا کرے ہے سوز دروں بلا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھاتی جلا کرے ہے سوز دروں بلا ہے
by میر تقی میر

چھاتی جلا کرے ہے سوز دروں بلا ہے
اک آگ سی رہے ہے کیا جانیے کہ کیا ہے

میں اور تو ہیں دونوں مجبور طور اپنے
پیشہ ترا جفا ہے شیوہ مرا وفا ہے

روئے سخن ہے کیدھر اہل جہاں کا یا رب
سب متفق ہیں اس پر ہر ایک کا خدا ہے

کچھ بے سبب نہیں ہے خاطر مری پریشاں
دل کا الم جدا ہے غم جان کا جدا ہے

حسن ان بھی معینوں کا تھا آپ ہی صورتوں میں
اس مرتبے سے آگے کوئی چلے تو کیا ہے

شادی سے غم جہاں میں وہ چند ہم نے پایا
ہے عید ایک دن تو دس روز یاں دہا ہے

ہے خصم جان عاشق وہ محو ناز لیکن
ہر لمحہ بے ادائی یہ بھی تو اک ادا ہے

ہو جائے یاس جس میں سو عاشقی ہے ورنہ
ہر رنج کو شفا ہے ہر درد کو دوا ہے

نایاب اس گہر کی کیا ہے تلاش آساں
جی ڈوبتا ہے اس کا جو تہہ سے آشنا ہے

مشفق ملاذ و قبلہ کعبہ خدا پیمبر
جس خط میں شوق سے میں کیا کیا اسے لکھا ہے

تاثیر عشق دیکھو وہ نامہ واں پہنچ کر
جوں کاغذ ہوائی ہر سو اڑا پھرا ہے

ہے گرچہ طفل مکتب وہ شوخ ابھی تو لیکن
جس سے ملا ہے اس کا استاد ہو ملا ہے

پھرتے ہو میرؔ صاحب سب سے جدے جدے تم
شاید کہیں تمہارا دل ان دنوں لگا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse