چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
by میر تقی میر

چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا

دہر میں میں خاک بسر ہی رہا
عمر کو اس طور بسر کر گیا

دل نہیں ہے منزل سینہ میں اب
یاں سے وہ بیچارہ سفر کر گیا

حیف جو وہ نسخۂ دل کے اپر
سرسری سی ایک نظر کر گیا

کس کو مرے حال سے تھی آگہی
نالۂ شب سب کو خبر کر گیا

گو نہ چلا تا مژۂ تیر نگہ
اپنے جگر سے تو گزر کر گیا

مجلس آفاق میں پروانہ ساں
میرؔ بھی شام اپنی سحر کر گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse