چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
by میر تقی میر

چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے

رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں
آگے ہو مے خانے کے نکلو عہد بادہ گساراں ہے

عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت
یعنی مصیبت ایسی اٹھانا کار کار گزاراں ہے

دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے
لوہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے

کوہ کن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے
عشق میں ہم کو میرؔ نہایت پاس عزت داراں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse