چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے
by میر تقی میر

چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے
اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اٹھایا ہم نے

حسرت لطف عزیزان چمن جی میں رہی
سر پہ دیکھا نہ گل و سرو کا سایہ ہم نے

جی میں تھا عرش پہ جا باندھئے تکیہ لیکن
بسترہ خاک ہی میں اب تو بچھایا ہم نے

بعد یک عمر کہیں تم کو جو تنہا پایا
ڈرتے ڈرتے ہی کچھ احوال سنایا ہم نے

یاں فقط ریختہ ہی کہنے نہ آئے تھے ہم
چار دن یہ بھی تماشا سا دکھایا ہم نے

بارے کل باغ میں جا مرغ چمن سے مل کر
خوبی گل کا مزہ خوب اڑایا ہم نے

تازگی داغ کی ہر شام کو بے ہیچ نہیں
آہ کیا جانے دیا کس کا بجھایا ہم نے

دشت و کہسار میں سر مار کے چندے تجھ بن
قیس و فرہاد کو پھر یاد دلایا ہم نے

بیکلی سے دل بیتاب کی مر گزرے تھے
سو تہ خاک بھی آرام نہ پایا ہم نے

یہ ستم تازہ ہوا اور کہ پائیز میں میرؔ
دل خس و خار سے ناچار لگایا ہم نے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse