پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے
by میر تقی میر

پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے
اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سوئیے

رخسار اس کے ہائے رے جب دیکھتے ہیں ہم
آتا ہے جی میں آنکھوں کو ان میں گڑویئے

اخلاص دل سے چاہیے سجدہ نماز میں
بے فائدہ ہے ورنہ جو یوں وقت کھوئیے

کس طور آنسوؤں میں نہاتے ہیں غم کشاں
اس آب گرم میں تو نہ انگلی ڈبوئیے

مطلب کو تو پہنچتے نہیں اندھے کے سے طور
ہم مارتے پھرے ہیں یو نہیں ٹپے ٹویئے

اب جان جسم خاکی سے تنگ آ گئی بہت
کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھویئے

آلودہ اس گلی کی جو ہوں خاک سے تو میرؔ
آب حیات سے بھی نہ وے پاؤں دھوئیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse