پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے
by میر تقی میر

پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے
کیا تازہ کوئی گل نے اب شاخ نکالی ہے

سچ پوچھو تو کب ہے گا اس کا سا دہن غنچہ
تسکیں کے لیے ہم نے اک بات بنا لی ہے

دیہی کو نہ کچھ پوچھو اک بھرت کا ہے گڑوا
ترکیب سے کیا کہیے سانچے میں کی ڈھالی ہے

ہم قد خمیدہ سے آغوش ہوئے سارے
پر فائدہ تجھ سے تو آغوش وہ خالی ہے

عزت کی کوئی صورت دکھلائی نہیں دیتی
چپ رہیے تو چشمک ہے کچھ کہیے تو گالی ہے

دو گام کے چلنے میں پامال ہوا عالم
کچھ ساری خدائی سے وہ چال نرالی ہے

ہے گی تو دو سالہ پر ہے دختر رز آفت
کیا پیر مغاں نے بھی اک چھوکری پالی ہے

خوں ریزی میں ہم سوں کی جو خاک برابر ہیں
کب سر تو فرو لایا ہمت تری عالی ہے

جب سر چڑھے ہوں ایسے تب عشق کریں سو بھی
جوں توں یہ بلا سر سے فرہاد نے ٹالی ہے

ان مغبچوں میں زاہد پھر سر زدہ مت آنا
مندیل تری اب کے ہم نے تو بچا لی ہے

کیا میرؔ تو روتا ہے پامالیٔ دل ہی کو
ان لونڈوں نے تو دلی سب سر پہ اٹھا لی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse