پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا
by میر تقی میر

پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا
اک وقت میں یہ دیدہ بھی طوفان رو چکا

افسوس میرے مردے پر اتنا نہ کر کہ اب
پچھتانا یوں ہی سا ہے جو ہونا تھا ہو چکا

لگتی نہیں پلک سے پلک انتظار میں
آنکھیں اگر یہی ہیں تو بھر نیند سو چکا

یک چشمک پیالہ ہے ساقی بہار عمر
جھپکی لگی کہ دور یہ آخر ہی ہو چکا

ممکن نہیں کہ گل کرے ویسی شگفتگی
اس سرزمیں میں تخم محبت میں بو چکا

پایا نہ دل بہایا ہوا سیل اشک کا
میں پنجۂ مژہ سے سمندر بلو چکا

ہر صبح حادثے سے یہ کہتا ہے آسماں
دے جام خون میرؔ کو گر منہ وہ دھو چکا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse