پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات
by میر تقی میر

پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

اک دن تو وفا بھی کرتے وعدہ
گزری ہے امیدوار ہر رات

مکھڑے سے اٹھائیں ان نے زلفیں
جانا بھی نہ ہم گئی کدھر رات

تو پاس نہیں ہوا تو روتے
رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات

کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں
رو اٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات

واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
عاشق کی بھی یاں گئی گزر رات

ساقی کے جو آنے کی خبر تھی
گزری ہمیں ساری بے خبر رات

کیا سوز جگر کہوں میں ہمدم
آیا جو سخن زبان پر رات

صحبت یہ رہی کہ شمع روی
لے شام سے تا دم سحر رات

کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات

دن وصل کا یوں کٹا کہے تو
کاٹی ہے جدائی کی مگر رات

کل تھی شب وصل اک ادا پر
اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات

جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ
پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات

کرنے لگا پشت چشم نازک
سوتے سے اٹھا جو چونک کر رات

تھی صبح جو منہ کو کھول دیتا
ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات

پر زلفوں میں منہ چھپا کے پوچھا
اب ہووے گی میرؔ کس قدر رات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse