پشت پا ماری بسکہ دنیا پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
by میر تقی میر

پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر

ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز
کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر

گرو مے ہوں آؤ شیخ شہر
ابر جھوما ہی جاہے صحرا پر

دل پر خوں تو تھا گلابی شراب
جی ہی اپنا چلا نہ صہبا پر

یاں جہاں میں کہ شہر گوراں ہے
سات پردے ہیں چشم بینا پر

فرصت عیش اپنی یوں گزری
کہ مصیبت پڑی تمنا پر

طارم تاک سے لہو ٹپکا
سنگ باراں ہوا ہے مینا پر

میرؔ کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse