ٹک تو خاموش رکھو منہ میں زباں سنتے ہو
Appearance
ٹک تو خاموش رکھو منہ میں زباں سنتے ہو
اپنی ہی کہتے ہو میری بھی میاں سنتے ہو
سنگ کو آب کریں پل میں ہماری باتیں
لیکن افسوس یہی ہے کہ کہاں سنتے ہو
خشک و تر پھونکتی پھرتی ہے سدا آتش عشق
بچیو اس آنچ سے اے پیر و جواں سنتے ہو
دم قدم تک تھی ہمارے ہی جنوں کی رونق
اب بھی کوچوں میں کہیں شور و فغاں سنتے ہو
میں کہا خلق تمہاری جو کمر کہتی ہے
تم بھی اس کا کہیں کچھ ذکر و بیاں سنتے ہو
ہنس کے یوں کہنے لگا خیر اگر ہے یہ بات
ہوئے گی ویسی ہی جیسی کہ وہاں سنتے ہو
حضرت دردؔ کی خدمت میں جب آ قائمؔ نے
عرض کہ یہ کہ اے استاد زماں سنتے ہو
امر ہووے تو ہدایتؔ کو کروں میں سیدھا
واں سے ارشاد ہوا یہ کہ میاں سنتے ہو
راست ہوتے ہیں کسی سے بھی کبھو کج طینت
تیر بنتی ہے کہیں شاخ کماں سنتے ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |