ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو
by میر تقی میر

ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو
اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو

چالیں تمام بے ڈھب باتیں فریب ہیں سب
حاصل کہ اے شکر لب اب وہ نہیں رہا تو

جاتے نہیں اٹھائے یہ شور ہر سحر کے
یا اب چمن میں بلبل ہم ہی رہیں گے یا تو

آ ابر ایک دو دم آپس میں رکھیں صحبت
کڑھنے کو ہوں میں آندھی رونے کو ہے بلا تو

تقریب پر بھی تو تو پہلو تہی کرے ہے
دس بار عید آئی کب کب گلے ملا تو

تیرے دہن سے اس کو نسبت ہو کچھ تو کہیے
گل گو کرے ہے دعویٰ خاطر میں کچھ نہ لا تو

دل کیونکے راست آوے دعواے آشنائی
دریائے حسن وہ مہ کشتی بکف گدا تو

ہر فرد یاس ابھی سے دفتر ہے تجھ گلے کا
ہے قہر جب کہ ہوگا حرفوں سے آشنا تو

عالم ہے شوق کشتۂ خلقت ہے تیری رفتہ
جانوں کی آرزو تو آنکھوں کا مدعا تو

منہ کریے جس طرف کو سو ہی تری طرف ہے
پر کچھ نہیں ہے پیدا کیدھر ہے اے خدا تو

آتی بہ خود نہیں ہے باد بہار اب تک
دو گام تھا چمن میں ٹک ناز سے چلا تو

کم میری اور آنا کم آنکھ کا ملانا
کرنے سے یہ ادائیں ہے مدعا کہ جا تو

گفت و شنود اکثر میرے ترے رہے ہے
ظالم معاف رکھیو میرا کہا سنا تو

کہہ سانجھ کے موئے کو اے میرؔ روئیں کب تک
جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse