وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا
by میر تقی میر

وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا
سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا

گلشن کے طائروں نے کیا بے مروتی کی
یک برگ گل قفس میں ہم تک نہ کوئی لایا

بے ہیچ اس کا غصہ یارو بلائے جاں ہے
ہرگز منا نہ ہم سے بہتیرا ہی منایا

قد بلند اگرچہ بے لطف بھی نہیں ہے
سرو چمن میں لیکن اندازہ وہ نہ پایا

نقشہ عجب ہے اس کا نقاش نے ازل کے
مطبوع ایسا چہرہ کوئی نہ پھر بنایا

شب کو نشے میں باہم تھی گفتگوئے درہم
اس مست نے جھنکایا یعنی بہت جھکایا

دل بستگی میں کھلنا اس کا نہ اس سے دیکھا
بخت نگوں کو ہم نے سو بار آزمایا

عاشق جہاں ہوا ہے بے ڈھنگیاں ہی کی ہیں
اس میرؔ بے خرد نے کب ڈھب سے دل لگایا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse