وقت رخصت کے جو روتی تھی کھڑی زار بہن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وقت رخصت کے جو روتی تھی کھڑی زار بہن
by میر تقی میر

وقت رخصت کے جو روتی تھی کھڑی زار بہن
بولے شہ رو نہ بس اب اے مری غم خوار بہن
کیا کروں جان کے دینے میں ہوں ناچار بہن
اب رہا روز قیامت ہی پہ دیدار بہن

جن عزیزوں نے مرے ساتھ کیا تھا اک جوگ
دیکھتے دیکھتے ہی چل بسے سارے وے لوگ
لطف اس جینے کا کچھ ہے کہ رکھا کریے سوگ
ہوجے کس کس کے لیے آہ عزادار بہن

ساتھ والا نہ کوئی ہووے رہوں میں صد حیف
بن حریفوں کے یہ خم خانہ ہے سارا بے کیف
پھر جو بازو تھے وے سب ہیں علف خنجر و سیف
قاسم اکبر کے تئیں کھا گئی تلوار بہن

ساتھ جو ایسا ہو تیار تو رہتا ہے کوئی
واسطے جائے یہ پھر جور بھی سہتا ہے کوئی
اس جگہ جز سخن مرگ بھی کہتا ہے کوئی
ہو تنک تو ہی مری منصف گفتار بہن

ہاتھ سے بیٹوں بھتیجوں کو نہ یوں دے جاتا
بیکسانہ رفقا کے نہ گلے کٹواتا
کس و کو ساتھ لیے کاہے کو یاں میں آتا
علم اگر ہوتا کہ یہ دشت ہے خوں خوار بہن

آتش غم سے درونہ ہی نہیں جلتا ہے
دل بھی سینے میں مرے جیسے کوئی ملتا ہے
گھر کے ویرانے کی کچھ شرح میں لب ہلتا ہے
ورنہ حیرت نے کیا ہے مجھے دیوار بہن

حیف وہ جن کنھوں نے ساتھ نہ یاروں کا کیا
پھر وہ ہے ہے کہ اکیلا برے احوال جیا
پاس ان کا ہے ضروری جنھوں نے جان دیا
دور ان سے ہے مجھے زندگی دشوار بہن

ہر دم ایک آگ نئی جلتی ہے میں بھنتا ہوں
ناکسی اپنی نظر کرتا ہوں سر دھنتا ہوں
منھ پہ کیا کیا مرے وے کہتے ہیں میں سنتا ہوں
ہم زبانی سے جنھوں کی تھی مجھے عار بہن

بالش ناز سے جس کے تئیں لگتا تھا ننگ
اب اسی سر کے تئیں پاتے ہیں شائستۂ سنگ
پھول رہتے تھے بھرے جس میں ہمیشہ صد رنگ
اسی دامن سے گتھے رہتے ہیں اب خار بہن

ہائے یہ وقت نہیں طاقت دل کھونے کا
کڑھیو تب جب تجھے غم ہو نہ مرے ہونے کا
ابھی کیا رووے ہے آگے ہے سماں رونے کا
یاد آؤں گا بہت میں جگرافگار بہن

خاک میں اپنے جگرپارے پڑے پاتا ہوں
رنگ صحبت سے کھڑا خون جگر کھاتا ہوں
جی میں جو کچھ ہے سوجی ہی میں لیے جاتا ہوں
وقت ہے تنگ مناسب نہیں اظہار بہن

خوش نہ اس خستگی حال سے گڑتا پوتا
اپنے دل کے لہو سے خاک بھرا منھ دھوتا
آج کے دن جو سلامت مرے سر پر ہوتا
دیکھتا یوں نہ مجھے حیدر کرار بہن

آشنا کون کہوں جس سے یہ حال مستور
عقل سے دور ہے مرنے کے قریب اب مذکور
درد دل اپنا سناتا اسے سب میں مجبور
ہوتا دنیا میں اگر احمد مختار بہن

چشم انصاف کہاں جس سے نظر آوے حال
کس کے اس طرح ہوئے خویش و برادر پامال
تو ہی مجھ ظلم رسیدہ سے ہو سرگرم مقال
ابھی اکبر تھا بھلا خوں کا سزاوار بہن

جور کے تیر کا اصغر کا گلا تھا قابل
قاسم ایسا تھا کہ مارا پڑے ہوکر گھائل
میں ہوں ایسا کہ مرے درپئے خوں ہوں جاہل
عالم الغیب ہی جانے ہے یہ اسرار بہن

میں تو جانا تھا کہ یہ قوم تشہدگو ہے
اور احمد کا تمناے دل و جاں تو ہے
یہ نہ جانا کہ ہر اک تیرہ دروں بدخو ہے
جی سے ماریں گے مجھے کرکے گرفتار بہن

آنکھ ان لوگوں کی آتی ہے نظر مجھ کو بری
دیکھیو سر کے تئیں کاٹیں گے لے لے کے چھری
پھر بھی تو ان کے دلوں سے نہیں جانے کی پری
سر کٹے پر بھی رکھیں گے یہ سروکار بہن

غم شریک آج پدر ہے نہ کوئی بھائی ہے
سو طرح کی ہے جفا اور یہ تنہائی ہے
سر پہ کیا جانیے کیوں ایسی بلا آئی ہے
پاؤں تو کج ہے مرا یاں نہیں زنہار بہن

مجھ کو جائے ہی بنے گرچہ نہیں ہے دل خواہ
سر کٹے ساتھ کے جتنے ہیں کھڑے ہیں سر راہ
دل غم دیدہ میں کیا کیا ہے مرے کیونکر آہ
فرصت کم میں کہوں یہ غم بسیار بہن

ہاتھ سے تم بھی سر رشتۂ تسکیں کو نہ دو
سخت کر جی کے تئیں بیٹھو نہ روؤ نہ کڑھو
ہوسکے تو دل سجاد کو اب ہاتھ میں لو
چھوڑتا ہوں میں اسے بیکس و بیمار بہن

ایک تو تپ اسے رہتی ہی نہایت ہے حقیر
دوسرے جاتے رہے جان سے سب خرد و پیر
تیسرے مرگ پدر سخت کرے گی دل گیر
مار ہی ڈالے ہے آزار پر آزار بہن

وقت نزدیک ہے اب جیسے مرے جانے کا
یہی صورت ہے تو میں منھ نہیں دکھلانے کا
قابو بنتا ہے کہاں یاں تئیں پھر آنے کا
ہیں سب اسباب مرے مرنے کے تیار بہن

جس گھڑی تن سے مری جان جدا ہووے گی
دن کی ہوجاوے گی شب تیرہ ہوا ہووے گی
درہمی برہمی سے حشر بپا ہووے گی
اس قیامت میں سکینہ سے خبردار بہن

ہے وہ ناداں نہ کہیں خوف اثر کر جاوے
دیکھ کر گھر کے تئیں لٹتے ہوئے ڈر جاوے
یا مجھے یاد کرے سر کو پٹک مرجاوے
کرتی رہیو مرے پیچھے اسے ٹک پیار بہن

شہربانو کو نہ ٹک پاس سے ہلنے دیجو
فرط اندوہ سے دل اس کا سمھلنے دیجو
غم کی ماری کو نہ جنگل میں نکلنے دیجو
اس کے سب اہل جنوں کے سے ہیں اطوار بہن

مجھ سے دل بستگی رکھتی ہے وہ شومردہ بہت
کم جو آتا ہوں تو ہو جاتی ہے افسردہ بہت
سن کے مرنے کو مرے ہوگی دل آزردہ بہت
پونچھیو اس کے بہت دیدۂ خونبار بہن

یہ سخن بھائی نے کہہ منھ جو کیا اودھر کو
سر سے زینب نے اٹھا پھینک دیا معجر کو
دیکھتی تھی کبھی بھائی کو کبھی گھر در کو
چھپ گیا آنکھ سے جب رہ گئی من مار بہن

کیا کہوں میرؔ سنا جن نے جگر اس کا جلا
جب وہ نومید ہو یوں کہنے لگی تاب نہ لا
تو جو اک بار اٹھا یاں سے تو مرنے ہی چلا
اب پکارے گی اخی کہہ کسے ہر بار بہن

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse