وحشت تھی ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وحشت تھی ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
by میر تقی میر

وحشت تھی ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک

مرتے ہی سنا ان کو جنہیں دل لگی کچھ تھی
اچھا ہوا کوئی اس آزار سے اب تک

جب سے لگی ہیں آنکھیں کھلی راہ تکے ہیں
سوئے نہیں ساتھ اس کے کبھو پیار سے اب تک

آیا تھا کبھو یار سو معمول ہم اس کے
بستر پہ گرے رہتے ہیں بیمار سے اب تک

بد عہدیوں میں وقت وفات آن بھی پہنچا
وعدہ نہ ہوا ایک وفا یار سے اب تک

ہے قہر و غضب دیکھ طرف کشتے کے ظالم
کرتا ہے اشارت بھی تو تلوار سے اب تک

کچھ رنج دلی میرؔ جوانی میں کھنچا تھا
زردی نہیں جاتی مرے رخسار سے اب تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse