واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
by میر تقی میر

واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا

آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا

دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر
گل کا وہ روئے خنداں چشم پر آب نکلا

پردے ہی میں چلا جا خورشید تو ہے بہتر
اک حشر ہے جو گھر سے وہ بے حجاب نکلا

کچھ دیر ہی لگی نہ دل کو تو تیر لگتے
اس صید ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا

ہر حرف غم نے میرے مجلس کے تئیں رلایا
گویا غبار دل کا پڑھتا کتاب نکلا

روئے عرق فشاں کو بس پونچھ گرم مت ہو
اس گل میں کیا رہے گا جس کا گلاب نکلا

مطلق نہ اعتنا کی احوال پر ہمارے
نامے کا نامے ہی میں سب پیچ و تاب نکلا

شان تغافل اپنے نو خط کی کیا لکھیں ہم
قاصد موا تب اس کے منہ سے جواب نکلا

کس کی نگہ کی گردش تھی میرؔ رو بہ مسجد
محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse