نہ ہوا پر نہ ہوا وہ بت خود سر اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ ہوا پر نہ ہوا وہ بت خود سر اپنا (1923)
by عبد الہادی وفا
324845نہ ہوا پر نہ ہوا وہ بت خود سر اپنا1923عبد الہادی وفا

نہ ہوا پر نہ ہوا وہ بت خود سر اپنا
تجھ سے انصاف ہے اے داور محشر اپنا

بے قراری نے لگایا ہے ٹھکانے مجھ کو
پہلوے مہر قیامت میں ہے بستر اپنا

کیا کھلے پھرتے ہو تم قاتل عالم ہو کر
کیوں دکھاتے ہو تماشہ سر محشر اپنا

ہم نشیں محو تصور ہوں اٹھاؤں کیوں کر
دے گیا ہے کسی زانو کے تلے سر اپنا

مل گیا ایک نہ ملنے سے ترے کنج لحد
بن گیا ایک بگڑنے سے ترے گھر اپنا

مجھ سے کیا پوچھتے ہو دونوں جہاں پھونک بھی دو
جلنے والے بھی ہیں اپنے رخ انور اپنا

دل میں کیا سوچتے ہو تم جسے چاہو دیکھو
آنکھ اپنی ہے نظر اپنی ہے منظر اپنا

اس کی ترکیب خرابی سے ہے اللہ اللہ
وہ بگڑتے ہیں تو بنتا ہے مقدر اپنا

ہائے وہ رنگ محبت کہ تبسم بن کر
کسی آلودہ لب یار میں تھا گھر اپنا

کچھ خبر ہے تمہیں برگشتگی مژگاں کی
وہ نزاکت سے سنبھلتا نہیں نشتر اپنا

چاہئے آئینۂ دل پہ فنا کی صیقل
مٹتے ہی مٹتے چمک جائے گا جوہر اپنا

تیرہ بختی نے وفا خوب چھپا رکھا تھا
کھل گیا جلسۂ احباب پہ جوہر اپنا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%DB%81_%DB%81%D9%88%D8%A7_%D9%BE%D8%B1_%D9%86%DB%81_%DB%81%D9%88%D8%A7_%D9%88%DB%81_%D8%A8%D8%AA_%D8%AE%D9%88%D8%AF_%D8%B3%D8%B1_%D8%A7%D9%BE%D9%86%D8%A7