نہ ہوئی صاف طبیعت ہی تو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ ہوئی صاف طبیعت ہی تو ہے (1905)
by مرزا آسمان جاہ انجم
317480نہ ہوئی صاف طبیعت ہی تو ہے1905مرزا آسمان جاہ انجم

نہ ہوئی صاف طبیعت ہی تو ہے
رہ گئی دل میں کدورت ہی تو ہے

بھا گئیں دل کو ادائیں ان کی
کھب گئی آنکھوں میں صورت ہی تو ہے

میری میت پہ نہ آئے نہ سہی
نہ ہوئی آپ کو فرصت ہی تو ہے

نہیں کرتا میں جفا کا شکوہ
آپ کیا کیجئے عادت ہی تو ہے

نہیں آتا کسی پہلو آرام
نہیں کٹتی شب فرقت ہی تو ہے

نکلی قاتل نہ ترے تیر کے ساتھ
دل ہی میں رہ گئی حسرت ہی تو ہے

مجھ سے عاصی پہ یہ بخشش یہ کرم
بندہ پرور تری رحمت ہی تو ہے

نہ ٹلی سر سے بلائے فرقت
پڑ گئی جان پہ آفت ہی تو ہے

ہم نے پھیرا نہ دل اپنا تجھ سے
جان دے بیٹھے مروت ہی تو ہے

حشر برپا ہے تری قامت سے
یہ بھی انداز قیامت ہی تو ہے

نہ رہا ضبط کا یارا انجمؔ
نہ چھپی ہم سے محبت ہی تو ہے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%DB%81_%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%8C_%D8%B5%D8%A7%D9%81_%D8%B7%D8%A8%DB%8C%D8%B9%D8%AA_%DB%81%DB%8C_%D8%AA%D9%88_%DB%81%DB%92